دیے کتنے اندھیری عمر کے رستوں میں آتے ہیں
دیے کتنے اندھیری عمر کے رستوں میں آتے ہیں
مگر کچھ وصف ہیں جو آخری برسوں میں آتے ہیں
چراغ انتظار ایسی نگہبانی کے عالم میں
منڈیروں پر نہیں جلتے تو پھر پلکوں میں آتے ہیں
بہت آب و ہوا کا قرض واجب ہے مگر ہم پر
یہ گھر جب تنگ ہو جاتے ہیں پھر گلیوں میں آتے ہیں
میان اختیار و اعتبار اک حد فاصل ہے
جو ہاتھوں میں نہیں آتے وہ پھر باہوں میں آتے ہیں
کوئی شے مشترک ہے پھول کانٹوں اور شعلوں میں
جو دامن سے لپٹتے ہیں گریبانوں میں آتے ہیں
کشادہ دست و بازو کو جو پت جھڑ میں بھی رکھتے ہیں
پرندے اگلے موسم کے انہی پیڑوں میں آتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.