دئے تھے زخم مجھے جو مرے مقدر نے
دئے تھے زخم مجھے جو مرے مقدر نے
شفا دی ان کو کسی کی نظر کے نشتر نے
گئے جو سیر کو کل ساحل سمندر پر
تو پیر چوم کے کی پیشوائی ساگر نے
تھا اختیار نہیں دل پہ ورنہ کیوں دیتا
یہ کیا ہوا کہ لیا بھی تو اک ستمگر نے
خرام ناز دل آرا پہ جب نظر ٹھہری
دبا لی دانتوں میں انگلی وہیں صنوبر نے
کیا کسی کو تو گمراہ دین حق سے اور
کسی کو چھوڑ دیا راہ میں ہی رہبر نے
گلہ تھا آپ کو ہم بات کیوں نہیں کرتے
سنیں جو کہہ نہ سکے کہہ دیا وہ جھانجھر نے
ہے اسپ تیز قدم پر سوار عمر انس
سبک خرامی پہ شکوہ کیا ہے صرصر نے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.