دو گھڑی قافلۂ درد کو ٹھہرایا ہے
دو گھڑی قافلۂ درد کو ٹھہرایا ہے
بات یہ ہے کہ مجھے تیرا خیال آیا ہے
اک نئے دور کی آواز سمجھ کر مجھ کو
عصر حاضر نے بڑے پیار سے اپنایا ہے
کتنی راتوں کو ترے درد کی دولت بخشی
کتنی راہوں کو ترے نام سے چمکایا ہے
دل کی گلیوں سے گزرتے ہوئے دیکھا ہے تجھے
یا کسی یاد کی دیوار تلے پایا ہے
موسم گل بھی جب آیا ہے تو آتے آتے
رہ گزاروں سے کڑی دھوپ اٹھا لایا ہے
تجھ کو پا کر تجھے کھونے کی تمنا کی ہے
ہائے کس موڑ پہ حالات نے پہنچایا ہے
وقت بچھڑا ہے تو پیغام وفا چھوڑ گیا
چاند ڈوبا ہے تو سینے میں اتر آیا ہے
جیسے اکتا کے مہ و مہر کے ہنگاموں سے
آج پھر کوئی اندھیروں میں چلا آیا ہے
اس نے مجھ سے بھی سوا پیار کیا ہے مجھ سے
عمر بھر جس نے مجھے پیار کو ترسایا ہے
وقت کی تیز روی دیکھ کے یوں لگتا ہے
جیسے مقتل سے کوئی جان بچا لایا ہے
ذہن میں کوئی دریچہ تو کھلا ہے جامیؔ
دشت ہجراں میں کوئی خواب تو لہرایا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.