دہراتے ہوئے اشک مرے بہنے لگے تھے
دہراتے ہوئے اشک مرے بہنے لگے تھے
وہ قصے جو معصوم چراغوں نے کہے تھے
مدت سے میری آنکھ کے در چیر رہا ہے
وہ خواب جو عجلت میں نہیں دیکھ سکے تھے
ہم لوگ حوالاتی نہیں قیدیٔ دل تھے
سو قید کے عالم میں تجھے سوچ رہے تھے
میں کہتا رہا روشنی پرور ہیں بچا لو
جب لوگ چراغوں کے گلے کاٹ رہے تھے
یہ کیا کہ پلٹ کر کوئی واپس نہیں آیا
دنیا تری جانب تو کئی لوگ گئے تھے
پوچھا نہ کسی شخص نے بھی حال ہمارا
نقصان فقیروں کا سبھی بھول گئے تھے
جب لوگ وہاں رقص کے ماحول میں گم تھے
ہم دونوں بچھڑنے کا سبب ڈھونڈ رہے تھے
کل رات عجب طرز کی وحشت کا سماں تھا
تنہائی میں دروازوں کے در کھول دیے تھے
کرنا تھا مجھے پار کسی آنکھ کا ساحل
اور زاد سفر میں بھی فقط کچے گھڑے تھے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.