دونوں جہاں میں مجھ کو جھکایا نہیں گیا
دونوں جہاں میں مجھ کو جھکایا نہیں گیا
سر سے مرے بزرگوں کا سایہ نہیں گیا
سینے میں میرے کیسی تجلی یہ دفن ہے
جو آگ سے بھی مجھ کو جلایا نہیں گیا
دیکھا جو میں نے سچ کو زیادہ قریب سے
پھر چہرہ اس کا مجھ سے بنایا نہیں گیا
حیرت میں پڑ گئی ہے یہ بینائی دیکھ کر
منظر جو اس جہاں کو دکھایا نہیں گیا
میرے خلاف جاؤ تو پہلے یہ سوچنا
بن پانی مچھلیوں کو جلایا نہیں گیا
یہ دشمنی تو یار کسی کام کی نہیں
اک یار تک ٹھکانے لگایا نہیں گیا
خون حسین آج بھی ہے میری آنکھ میں
خون حسین مجھ سے بھلایا نہیں گیا
دنیا سے کھیلنا تو بس اک شوق ہے مرا
اس شوق میں کسی کو ہرایا نہیں گیا
حیران ہوں میں یار کہ وہ سب کے ساتھ ہے
جس سے کسی کا ساتھ نبھایا نہیں گیا
تم تو بتا رہے تھے ہمیں اپنے من کی بات
ہم سے تو اپنا حال بتایا نہیں گیا
میں بے وفا نہیں ہوں مگر تھوڑا سخت ہوں
لیکن تری سمجھ میں جو آیا نہیں گیا
ہم ہجرتوں کے مارے ہوئے خوش نصیب لوگ
ہم سے کوئی بھی رشتہ نبھایا نہیں گیا
پروردگار تو نے یہ کیسے بنا دیا
پانی میں ہم سے رستہ بنایا نہیں گیا
کیا موت کی بساط ہے جو سامنا کرے
مسعودؔ کو کسی سے ہلایا نہیں گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.