دونوں میں تھی ہوس کہ محبت تو تھی نہیں
دونوں میں تھی ہوس کہ محبت تو تھی نہیں
یعنی وفا کی ان کو ضرورت تو تھی نہیں
اچھا تو چاہتی تھیں زمانہ سے تم مجھے
لب پر کبھی تمہارے شکایت تو تھی نہیں
ہاں لے گئی وہ تم کو پریشانی کیوں بھلا
دل میرا تھا کسی کی امانت تو تھی نہیں
سیکھا ہے آپ ہی سے کہ منہ توڑ دو جواب
گھر میں ہمارے ایسی روایت تو تھی نہیں
یوں ہی وہ کھیلتے تھے کھلونا تھا ان کا بس
یعنی کہ ان کو میری ضرورت تو تھی نہیں
تم ہو جہاں پہ اس کے بھی لائق ہو تم کہو
یعنی تمہاری اپنی وہ محنت تو تھی نہیں
مجروح تھا میں اپنوں کی باتوں سے اب بھی ہوں
ہنستا ہوں اب بھی رونے کی عادت تو تھی نہیں
ہم ہی رہے شریف ہدایت کی راہ پر
ان لوگوں میں ذرا سی شرافت تو تھی نہیں
وہ ورزشوں کے شوق میں سجدے کیا کیے
دل میں خدا کا خوف عبادت تو تھی نہیں
اب کیوں کرو کسی سے مروت جہان میں
لوگوں کو بھی تمہارے مروت تو تھی نہیں
بس نام یہ بڑے تھے ادب کی بساط پر
اپنے کیے پہ ان کو ندامت تو تھی نہیں
سچ بولنے کی خو مجھے ورثے میں ہے ملی
میری کسی سے کوئی عداوت تو تھی نہیں
ہنس کر کے جی رہے تھے بلاؤں کے دور میں
ارشادؔ اپنے قلب کو راحت تو تھی نہیں
- کتاب : آہٹ دیوان عزیز (Pg. 180)
- Author : ارشاد عزیز
- مطبع : مرکزی پبلیکیشنز،نئی دہلی (2022)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.