دونوں طرف ہی برسوں یہ سلسلے رہے تھے
دونوں طرف ہی برسوں یہ سلسلے رہے تھے
کچھ وہ تھے بد گماں سے کچھ ہم کھنچے رہے تھے
جن کو مرے جنوں سے کچھ واسطہ نہیں تھا
مڑ مڑ کے میری جانب کیوں دیکھتے رہے تھے
تجھ پر خدا کی رحمت اے دل ہے یہ حقیقت
جب تک نہ تھا ترا غم ہم چین سے رہے تھے
وہ گلشن محبت تاراج ہو گیا کیا
کل تک جو خون دل سے ہم سینچتے رہے تھے
ہم کو تباہ کر کے کتنے سکون سے ہیں
ہم مضطرب ہمیشہ جن کے لئے رہے تھے
دیکھا جو آج ان کو حیران رہ گئے سب
کیا کیا نہ لوگ ہم کو الزام دے رہے تھے
آؤ کہ اتفاقاً تم بھی ہو آج تنہا
ہم بھی ہجوم غم میں اکثر گھرے رہے تھے
کیا کیا خیال آئے فردوس ہوش بن کر
کتنے حسیں عزائم دل میں چھپے رہے تھے
وہ دن بھی یاد ہیں جب یہ حال تھا کہ ہم پر
ہنستی رہی تھی دنیا ہم دیکھتے رہے تھے
اتنا تو یاد ہے جب وہ ہو رہے تھے رخصت
تا دیر دل ہی دل میں کچھ سوچتے رہے تھے
حیران ہوں کہ ان کو کیا ہو گیا ہے جانے
ساحل سے جو مسلسل آواز دے رہے تھے
اک انقلاب آخر آ ہی گیا جہاں میں
سوتی رہی تھی دنیا ہم جاگتے رہے تھے
لو دیکھ لو ہیں میرے قدموں میں سر بہ سجدہ
یہ بت کہ جن کو کل تک سب پوجتے رہے تھے
گزرے تھے ہم بھی راہیؔ اک مقتل وفا سے
کچھ لوگ چل بسے تھے کچھ سانس لے رہے تھے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.