دوست بھی تھے اس گلی میں دشمنوں کے ساتھ ساتھ
دوست بھی تھے اس گلی میں دشمنوں کے ساتھ ساتھ
پھول بھی برسے تھے مجھ پر پتھروں کے ساتھ ساتھ
اب کہاں خواب و خیال و خال و خد پہلے سے ہیں
کس قدر بدلا ہوں میں کیلنڈروں کے ساتھ ساتھ
اب نجانے مجھ کو لے جائیں کہاں آنسو مرے
اب تو اک لمبا سفر ہے پانیوں کے ساتھ ساتھ
شوق بام و در میں کچھ بنیاد کا سوچا نہیں
گھر بناتا جا رہا ہوں ساحلوں کے ساتھ ساتھ
اس کی اک تصویر سے تھا رشک جنت گھر مرا
گھر میں اب کیسے رہوں ویرانیوں کے ساتھ ساتھ
چپکے چپکے جانے کیا لکھتا رہا ہوں رات بھر
بخت بھی کالا کیا ہے کاغذوں کے ساتھ ساتھ
دوریاں مجبوریاں تنہائیاں بے تابیاں
مستقل رہتیں ہیں ہم پردیسیوں کے ساتھ ساتھ
آج اس انداز سے گلشن میں لہرائی صبا
پھول بھی اڑنے لگے کچھ تتلیوں کے ساتھ ساتھ
چوٹ کھا بیٹھا کوئی یا دل لگا بیٹھا کہیں
آج کل ہوتا ہے ساگرؔ شاعروں کے ساتھ ساتھ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.