دنیائے دنی ہے مطلب کی سب رشتے ناطے توڑ دیے
دنیائے دنی ہے مطلب کی سب رشتے ناطے توڑ دیے
اب خود پہ بھروسہ کرنا ہے جتنے تھے سہارے چھوڑ دیے
اب دل سے دل کا ملنا کیا بس ہاتھ ملانا کافی ہے
دیرینہ طور طریقوں نے چلتے چلتے دم توڑ دیے
دنیائے محبت کے اندر نفرت کا اندھیرا جن سے بڑھے
اس دور ترقی کے ایسے جتنے ہیں اٹھا کر توڑ دیے
جو آندھیوں سے ٹکرا بھی سکیں ظلمت کا فسوں بھی توڑ سکیں
طاقوں میں سجا کر پہلے ہی تو کچھ ایسے رکھ چھوڑ دیے
کیا ملنا جلنا آپس میں یہ سب کہنے کی باتیں ہیں
ہم دیکھ چکے اس دور نے تو دل توڑ دیے سر جوڑ دیے
جب ظلم کے طوفاں امڑے ہیں جب یاس کے بادل چھائے ہیں
دنیا کو دیا ہے عزم جواں تاریخ کو ہم نے موڑ دیے
اے دور سیاست عہد زبوں جرارؔ سے یہ امید نہ رکھ
اس در پہ جھکا دی پیشانی ہاتھ اس کے آگے جوڑ دیے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.