دنیا کی جفائیں بھول گئیں تقدیر کا شکوہ بھول گئے
دنیا کی جفائیں بھول گئیں تقدیر کا شکوہ بھول گئے
جب ان سے نگاہیں چار ہوئیں سب اپنا پرایا بھول گئے
اک مست نظر نے ساقی کی رندوں پہ کچھ ایسا سحر کیا
فکر مے و مینا کیا کہئے ذکر مے و مینا بھول گئے
ہم اور کسی کی بزم طرب یہ راز سمجھ میں آ نہ سکا
اے عشق کہیں ایسا تو نہیں وہ ہم کو بھلانا بھول گئے
اس جان بہاراں نے جب سے منہ پھیر لیا ہے گلشن سے
شاخوں نے لچکنا چھوڑ دیا غنچے بھی چٹکنا بھول گئے
رحمت کا سبب تھی پرسش غم لیکن یہ تماشا خوب رہا
وہ چھیڑ کے سننا بھول گئے ہم کہہ کے سنانا بھول گئے
کلفت میں مزے آسائش کے پھولوں پہ گماں انگاروں کا
نشے میں جوانی کے گویا ہم فطرت دنیا بھول گئے
برباد غم ایسے ایسے بھی دیکھے ہیں اسی دنیا میں کبھی
ہم جن کی شکستہ حالی پر دو اشک بہانا بھول گئے
اندازۂ سوز غم نہ کیا یہ بھول ہوئی ہم سے پہلے
پھر اس پہ قیامت وہ اپنے دامن کو بچانا بھول گئے
طوفان محبت میں ہم نے پایا ہے ادیبؔ اس طرح سکوں
آنکھوں سے کنارا اوجھل تھا دل سے بھی کنارا بھول گئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.