Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دنیا میں کوئی رنج سے بڑھ کر خوشی نہیں

محمد یوسف راسخ

دنیا میں کوئی رنج سے بڑھ کر خوشی نہیں

محمد یوسف راسخ

MORE BYمحمد یوسف راسخ

    دنیا میں کوئی رنج سے بڑھ کر خوشی نہیں

    وہ بھی ہمیں نصیب کبھی ہے کبھی نہیں

    درد جگر کی تم پہ مصیبت پڑی نہیں

    تم تو کہو گے عشق کی منزل کڑی نہیں

    دشمن کی راہ روک کے بیٹھا ہوں آج میں

    دنیا کا راستہ ہے تمہاری گلی نہیں

    دشمن کی موت کا تمہیں کیوں کر نہ ہو ملال

    اک باوفا جہاں میں وہی تھا وہی نہیں

    شوخی کسی کی کھل گئی آخر کلیم پر

    کرنے کی تھی جو بات وہی ان سے کی نہیں

    قطروں کے لب پہ شور انالبحر ہے رواں

    تقلید کیا یہ حضرت منصور کی نہیں

    ایفائے عہد ہے کہ قیامت کا شور ہے

    تم کھل کے کہہ نہ دو کہ زباں ہم نے دی نہیں

    لیلیٰ نے خود قرار دیا ہے وفا کو جرم

    مجنوں نے وہ کتاب محبت پڑھی نہیں

    کٹنے کو کٹ رہی ہے برابر شب فراق

    جینے کو جی رہا ہوں مگر زندگی نہیں

    تم کو فریب غیر سے آگاہ کر دیا

    ورنہ مجھے کسی سے کوئی دشمنی نہیں

    روتا ہے بے ثباتیٔ گلزار دہر پر

    غنچہ کے لب پہ غور سے دیکھو ہنسی نہیں

    آنکھوں نے پھوٹ پھوٹ کے سب حال کہہ دیا

    عین وصال میں بھی یہاں خامشی نہیں

    پیر مغاں کے فیض سے روشن ہے مے کدہ

    ساغر کا جو مرید نہیں متقی نہیں

    آرام سے قفس میں گزاروں گا زندگی

    اچھا ہوا کہ طاقت پرواز ہی نہیں

    آتی ہے خاک طور سے اب تک یہی خدا

    دل کی لگی کا ذکر کوئی دل لگی نہیں

    عاشق کے دم سے حسن کی دنیا کو ہے فروغ

    بلبل نہیں تو رونق گلزار ہی نہیں

    دلبر کے انتخاب میں مجھ سے خطا ہوئی

    میرا قصور ہے یہ خطا آپ کی نہیں

    وحدت کا وہ سرور تھا ساقی کے جام میں

    پینے کو ہم نے پی ہے مگر بے خودی نہیں

    پوچھا تھا بے وفا تو نہ پایا رقیب کو

    میں نے بھی کس مزے سے کہا ہے کہ جی نہیں

    کھانے کو زخم ملتے ہیں پینے کو اشک ہیں

    روزی جہاں ہیں کیا مری تقدیر کی نہیں

    عاشق کے زخم دیکھ کے عیسیٰ نے کہہ دیا

    یہ تو نظر کی چوٹ ہے تلوار کی نہیں

    تشنہ لبوں کی جان ہے شمشیر آبدار

    خواہش انہیں تو کوثر و تسنیم کی نہیں

    جنبش ہوئی ہے دشنۂ غمزہ کو بے سبب

    اللہ خیر عالم اسباب کی نہیں

    جس سمت آنکھ اٹھتی ہے کشتوں کا ڈھیر ہے

    مقتل ہے عاشقوں کا تمہاری گلی نہیں

    جنت سے کچھ غرض ہے نہ دنیا سے واسطہ

    معشوق اپنا حور نہیں ہے پری نہیں

    خانہ خراب عشق کی حالت نہ پوچھئے

    کوئی بھی غم گسار بجز بیکسی نہیں

    انکار اب تو اس لب نازک سے ہو چکا

    پہلی سی شکل غنچۂ امید کی نہیں

    تو خانہ زاد زلف کو آزاد کیوں کرے

    میں تو ترا غلام ہوں میں آدمی نہیں

    حوروں کو بھیج کر مری حالت تو پوچھئے

    کنج مزار باعث دل بستگی نہیں

    اک ماہرو کی یاد نے چمکا دیا ہے دل

    سینہ ہے داغ داغ مگر تیرگی نہیں

    تاثیر آہ کی کبھی تم کو دکھائیں گے

    ہم ہیں تو گنبد فلک چنبری نہیں

    بارش ہی کو الٹ کے بنا دو نہ تم شراب

    تم کو ذرا مذاق ادب پروری نہیں

    روتا ہے کوئی دل کو کوئی اپنا جان کر

    ڈاکہ ہے لوٹ مار ہے یہ دلبری نہیں

    آنکھوں سے قتل کرتے ہو لب سے جلاتے ہو

    پھر یہ کمال کیا ہے جو افسوں گری نہیں

    طالب کی آنکھ کرتی ہے خیرہ شعاع حسن

    پردہ ہے اس کا نام یہ بے پردگی نہیں

    زمزم حرم سے آتا ہے راسخؔ کے واسطے

    وہ خانۂ خدا ہے وہاں کچھ کمی نہیں

    راسخؔ کسے سنائیں ہم اپنا بیان غم

    غالبؔ نہیں انیسؔ نہیں انوریؔ نہیں

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے