دنیا نے بس تھکا ہی دیا کام کم ہوئے
دنیا نے بس تھکا ہی دیا کام کم ہوئے
تیری گلی میں آئے تو کچھ تازہ دم ہوئے
عقدہ کھلا تو درد کے رشتے بہم ہوئے
دامن کے ساتھ اب کے گریباں بھی نم ہوئے
جب سے اسیر سلسلۂ بیش و کم ہوئے
ہم کو صلیب اپنے ہی نقش قدم ہوئے
بدلی ذرا جو طرز خرام ستار گاں
نقطوں میں آنکھ بیچ صحیفے رقم ہوئے
تھے منتظر ہمارے بھی گل چہرگان شہر
لیکن رہا گرفت جہاں سے نہ ہم ہوئے
رہ کر جن انتہاؤں میں اپنی گزر گئی
اس طرح جینے والے تو جاں بر ہی کم ہوئے
دیوار پر گڑے ہوئے ٹکڑے پہ کانچ کے
یہ کس حصار رنگ میں محصور ہم ہوئے
چشمک یہ دھوپ چھاؤں کی اور ایک زرد پھول
اک جان ناتواں پہ ہزاروں ستم ہوئے
یکتا و بے نظیر ہے وہ کیا اسے غرض
خارج ہوئے کہ داخل کعبہ صنم ہوئے
شاہینؔ تھے کمال کے رتبہ شناس دہر
پر اپنی منزلت سے خود آگاہ کم ہوئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.