دنیا یہ سمجھتی ہے کہ آنکھوں سے نہاں ہو
دنیا یہ سمجھتی ہے کہ آنکھوں سے نہاں ہو
دل میرا یہ کہتا ہے قریب رگ جاں ہو
ہر دانے کی ہے نشوونما خاک میں مل کر
وہ قطرہ نہیں رہتا جو دریا میں نہاں ہو
تم طالب دیدار سے رخ کو نہ چھپاؤ
در پردہ نگاہوں میں ہو ظاہر میں نہاں ہو
مظلومی کا منشا ہے یہ حسرت کا تقاضہ
بستی پہ شہیدوں کی بیاباں کا گماں ہو
پھر جوش جنوں لے چلا صحرا کی طرف کو
کیا جانیے اب صبح کہاں شام کہاں ہو
ہاں صبر نہیں کہتے تو کیا کہتے ہیں اس کو
خاموش رہوں اور مرے منہ میں زباں ہو
منصور کی مانند اگر جان ہو قرباں
قصہ ہو مرا اور زمانے کی زباں ہو
مایوسی کی تصویر ہو حسرت کا مرقع
اس طرح سے میت کسی بیکس کی رواں ہو
دل میں ہو مرے تیرا تصور دم آخر
ہاں نزع میں بھی نام ترا ورد زباں ہو
دل بیٹھتا ہے سینہ میں یوں بحر الم سے
کشتی کوئی جس طرح تہہ آب رواں ہو
کہتے ہیں مجھے دیکھ کے اللہ رے نفرت
وہ کون سا دن ہو جو یہ مٹی میں نہاں ہو
بدنام کرے غیر تو خوش ہوتے ہیں آفاقؔ
برہم ہوں وہ مجھ پر جو یہ کہہ دوں مری جاں ہو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.