دشمن جاں ہے نہ غارت گر دیں ہے کوئی
دشمن جاں ہے نہ غارت گر دیں ہے کوئی
پھر بھی آرام سے دنیا میں نہیں ہے کوئی
برق کے سائے میں کرتے ہیں نشیمن تعمیر
ہم سا دیوانہ بھی دنیا میں نہیں ہے کوئی
ہم بھی آزاد سہی آپ بھی آزاد سہی
ناصیہ سائی سے آزاد نہیں ہے کوئی
جو پڑے وہ نہ سہیں تو کریں کس سے فریاد
آسماں اپنا ہے یا اپنی زمیں ہے کوئی
جور ایام سے برداشتہ خاطر نہ ہوا
اس یقیں پر کہ رگ جاں سے قریں ہے کوئی
کیسا اندھیر ہے ساقی یہ تری محفل میں
کسی آئین کا پابند نہیں ہے کوئی
اب حرم سے کوئی نسبت نہ صنم خانے سے
ہم سا آزاد بھی دنیا میں کہیں ہے کوئی
کوئی تو بات ہے ساحل سے جو اٹھا طوفاں
نا خدا کی تو سیاست یہ نہیں ہے کوئی
بے وفا سے مجھے امید وفا ہے طالبؔ
خود فریبی ہے کہ یہ حسن یقیں ہے کوئی
اب کس امید پہ یہ آہ و فغاں اے طالبؔ
اب تو بیداد پہ مائل بھی نہیں ہے کوئی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.