دشمنی ہے اسے مجھ سے تو نبھانے آئے
دشمنی ہے اسے مجھ سے تو نبھانے آئے
پھول دینے نہ سہی زخم لگانے آئے
اپنی گلیوں میں ہمیں اپنا مکاں مل نہ سکا
آج ہم لوٹ کے جب اپنے ٹھکانے آئے
دعوے داروں سے اسے تھی بہت امید مگر
قریۂ غم میں ہمیں خاک اڑانے آئے
عیش کے رنگ کسی کو بھی ملے ہوں لیکن
میرے حصے میں تو خوشیوں کے فسانے آئے
ہم نے دل کھول کے حق بات کہی جب بھی کہی
عذر آیا نہ سیاست کے بہانے آئے
ایک بے نام اداسی ہے دل و جاں پہ محیط
ایسا لگتا ہے کہ پھر غم کے زمانے آئے
خوف جاں چھوڑ دیا اس سے یہ کہہ دیجے نیازؔ
اپنی تہذیب و زباں جو بھی مٹانے آئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.