دشمنی ہو مگر خوش کلامی رہے
دشمنی ہو مگر خوش کلامی رہے
ذکر خیام ہو فکر جامی رہے
گلستاں کی فضا ہم کو اچھی لگی
خوشبوؤں کے سدا ہم پیامی رہے
آدمیت کا ہرگز تقاضہ نہیں
تیرے کردار میں کوئی خامی رہے
تیرے مے خانے کا کیسا دستور ہے
جام ہو ہاتھ میں تشنہ کامی رہے
ذہن و دل پر ہیں پہرے لگے آج بھی
کب تلک اے خدا یہ غلامی رہے
جو صعوبت کے خدشات سے ڈر گئے
راہ الفت میں وہ سست گامی رہے
ہر طرف پیار کے پھول کھلتے رہیں
لے حجازی مری نغمہ شامی رہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.