ڈوبا ہوں تو کس شخص کا چہرہ نہیں اترا
ڈوبا ہوں تو کس شخص کا چہرہ نہیں اترا
میں درد کے قلزم میں بھی تنہا نہیں اترا
زنجیر نفس لکھتی رہی درد کی آیات
اک پل کو مگر سکھ کا صحیفہ نہیں اترا
انسان معلق ہیں خلاؤں کے بھنور میں
اشجار سے لگتا ہے کہ دریا نہیں اترا
سنتے ہیں کہ اس پیڑ سے ٹھنڈک ہی ملے گی
شاخوں کے دریچوں سے تو جھونکا نہیں اترا
پتھرائی ہوئی آنکھوں پہ حیراں نہ ہو اتنا
اس شہر میں کوئی بھی تو زندہ نہیں اترا
صحرائے بدن کو تھی طلب سائے کی لیکن
اک شخص بھی معیار پہ پورا نہیں اترا
سورج کی طلب میں کئی نذرانے دئے ہیں
گھر کے در و دیوار سے سایہ نہیں اترا
- کتاب : meyaar (Pg. 375)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.