ڈوبنے والا ہی تھا ساحل بر آمد کر لیا
ڈوبنے والا ہی تھا ساحل بر آمد کر لیا
اس نے بالآخر ہمارا دل بر آمد کر لیا
وہ بدن کی بھیک دینے پر ہوا راضی تو میں
اپنی خوشحالی میں اک سائل بر آمد کر لیا
ہم تلاش حق میں نکلے اور شرمندہ ہوئے
اس نے آئینے سے بھی باطل بر آمد کر لیا
عشق کے منکر تھے ہم تو یہ جہاں ناپید تھا
جب ہوئے اثبات پر مائل بر آمد کر لیا
آگ کے دریا میں کر کے رقص جب ہم تھک گئے
راکھ کے اک ڈھیر سے ساحل بر آمد کر لیا
کون کہتا ہے کہ ہم معصوم بزدل لوگ ہیں
اس نے تو ہر گھر سے اک قاتل بر آمد کر لیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.