ڈوبنے والے بھی تنہا تھے تنہا دیکھنے والے تھے
ڈوبنے والے بھی تنہا تھے تنہا دیکھنے والے تھے
جیسے اب کے چڑھے ہوئے تھے دریا دیکھنے والے تھے
آج تو شام ہی سے آنکھوں میں نیند نے خیمے گاڑ دیئے
ہم تو دن نکلے تک تیرا رستہ دیکھنے والے تھے
اک دستک کی رم جھم نے اندیشوں کے در کھول دیئے
رات اگر ہم سو جاتے تو سپنا دیکھنے والے تھے
ایک سوار کی سج دھج کو رستوں کی وحشت نگل گئی
ورنہ اس تہوار پہ ہم بھی میلہ دیکھنے والے تھے
میں نے جس صف کو چھوڑا ہے اس میں شامل سارے لوگ
اپنے قد کو بھول کے اپنا سایا دیکھنے والے تھے
میں پانی اور آگ سے اک مٹی کی خاطر لوٹا تھا
اور یہ دونوں عالم کھیل تماشا دیکھنے والے تھے
اب آئینہ حیرت سے اک اک کا منہ تکتا ہے سلیمؔ
پہلے لوگ تو آئینے میں چہرہ دیکھنے والے تھے
- کتاب : meyaar (Pg. 348)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.