ڈوبوں گا کیسے میں کہ یہ پانی سمٹ گیا
ڈوبوں گا کیسے میں کہ یہ پانی سمٹ گیا
دریا تو یار ریت کے ٹیلوں میں بٹ گیا
تنہائیاں بھی ہاتھ جھٹک کر چلی گئیں
میں بھی کسی چراغ کی لو سے لپٹ گیا
اک روز اپنا قافلۂ نم دکھا دیا
پھر اپنے آپ دکھ کا سمندر پلٹ گیا
اک شام زندگی سے اداسی چلی گئی
مرنے کی چاہ سے بھی مرا جی اچٹ گیا
عقل و خرد پہ سچ کی سیاہی بکھر گئی
روشن ہوا دماغ تو دل سے لپٹ گیا
مدت کے بعد اس سے مرا سامنا ہوا
میں نے کہا کہ کون تو آئینہ ہٹ گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.