دور رہتے ہوئے نزدیک رگ جاں بھی رہے
دور رہتے ہوئے نزدیک رگ جاں بھی رہے
دشمن دل بھی رہے دل کے نگہباں بھی رہے
ڈوب جاتے ہیں کنارے بھی کبھی موجوں سے
اہل ساحل ذرا اندازۂ طوفاں بھی رہے
ان کا انداز محبت بھی نرالا دیکھا
مجھ میں شامل بھی رہے مجھ سے گریزاں بھی رہے
میں ترے قرب کا وہ دور بھلاؤں کیسے
تیرے گیسو مرے شانوں پہ پریشاں بھی رہے
جس پہ لوگوں کو فرشتوں کا گماں ہو جائے
کاش اس دور میں ایسا کوئی انساں بھی رہے
ہم کو منظور نہیں تھی جو نمائش اپنی
بزم میں مثل چراغ تہہ داماں بھی رہے
غم جاناں کا تعلق تو ہے دل سے لیکن
ہم وہی ہیں جو حریف غم دوراں بھی رہے
دیدۂ دل سے محبت کا تقاضا ہے یہی
تشنۂ دید رہے دید کا ارماں بھی رہے
آج دامن میں بس اک دولت غم ہے عارفؔ
ان کی الفت میں کبھی بے سر و ساماں بھی رہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.