دور تک بس اک دھندلکا گرد تنہائی کا تھا
دور تک بس اک دھندلکا گرد تنہائی کا تھا
راستوں کو رنج میری آبلہ پائی کا تھا
فصل گل رخصت ہوئی تو وحشتیں بھی مٹ گئیں
ہٹ گیا سایہ جو اک آسیب صحرائی کا تھا
توڑ ہی ڈالا سمندر نے طلسم خود سری
زعم کیا کیا ساحلوں کو اپنی پہنائی کا تھا
اور مبہم ہو گیا پیہم ملاقاتوں کے ساتھ
وہ جو اک موہوم سا رشتہ شناسائی کا تھا
خاک بن کر پتیاں موج ہوا سے جا ملیں
دیر سے اکبرؔ گلوں پر قرض پروائی کا تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.