دور تک بس خون کے ٹھہرے ہوئے دریا ملے
دور تک بس خون کے ٹھہرے ہوئے دریا ملے
مدتوں جاگی ہوئی آنکھوں کو دیکھا رو پڑے
احتراماً زندگی کو منہ لگانا ہی پڑا
ورنہ ہم اور زندگی کا زہر توبہ کیجیے
اپنے کاندھوں پر لیے اپنی کئی شخصیتیں
رات بھر آنکھوں کے جنگل میں بھٹکتے ہی رہے
چیختے چلاتے اندیشوں کی آنکھیں سرخ ہیں
جسم کی نا پختہ سڑکوں سے گزرنا چھوڑیئے
خون کے دھبوں کی سچائی ڈراتی ہی رہی
اپنے بارے میں کبھی سوچا تو گھبرانے لگے
ٹوٹے پھوٹے کالے شبدوں کے بھرے بازار میں
اس قدر خود کو گھمایا ہے کہ کالے پڑ گئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.