دور تک نہیں ملتی راہ شادمانی کی
دور تک نہیں ملتی راہ شادمانی کی
عشق جس کو کہتے ہیں بھول ہے جوانی کی
کوئی شے اگر بھاتی اس جہان فانی کی
ہم بھی آرزو کرتے عمر جاودانی کی
آپ میرے اشکوں کو لیں نہ اپنے دامن پر
آپ کو نہیں معلوم آگ ہے یہ پانی کی
آج اپنی خودداری بن گئی سپر ورنہ
چوٹ کھا گئے ہوتے ان کی مہربانی کی
ایسا لگ رہا ہے اب ان کے ہجر میں جیسے
موت نے بدل لی ہے شکل زندگانی کی
گھٹ کے رہ گئے دل میں دل کے سارے افسانے
کب زباں سمجھتا ہے کوئی بے زبانی کی
خار سے شناسائی چشم پوشیاں گل سے
یہ ادا بھی دیکھی ہے ہم نے باغبانی کی
اب جہاں بھی لے جائے اب جدھر بھی لے جائے
دل کو سونپ دی ہم نے رہبری جوانی کی
مٹ گئی وفا تو پھر دل میں کیا رہا باقی
ایک ہی نشانی تھی میری بے نشانی کی
اے دل ستم خوردہ ان سے رحم کی حسرت
اک دلیل پختہ ہے تیری ناتوانی کی
اے خلشؔ مجھے دنیا کس طرح بھلائے گی
جان بن گیا ہوں میں اس کی ہر کہانی کی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.