دور تک پھیلے رہے تنہائیوں کے سلسلے
دور تک پھیلے رہے تنہائیوں کے سلسلے
آنسوؤں کی دھند میں پرچھائیوں کے سلسلے
ایک تو ساون کا موسم اس پہ ماضی کی پھوار
زخم تازہ کر گئے پروائیوں کے سلسلے
ڈوبتے جاتے ہیں ساحل گرتے جاتے ہیں مکاں
بڑھ رہے ہیں ہر طرف انگنائیوں کے سلسلے
سطح دریا سے نہ گہرائی کا اندازہ ہوا
ڈوب کر ہم کو ملے گہرائیوں کے سلسلے
آج دنیا کہہ رہی ہے جن کو زریںؔ دیوتا
ان کے ماضی میں بھی ہیں رسوائیوں کے سلسلے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.