دور تھا ساحل بہت دریا بھی طغیانی میں تھا
دور تھا ساحل بہت دریا بھی طغیانی میں تھا
اک شکستہ ناؤ سا میں تیز رو پانی میں تھا
مجھ سے ملنے کوئی آتا بھی تو ملتا کس طرح
میں تو گھر میں بند خود اپنی نگہبانی میں تھا
آدمیت کے عوض اس نے خریدا ہے لباس
آدمی تھا آدمی جب عہد عریانی میں تھا
ہے کلب کے رنگ و رامش میں بھی میرے ساتھ ساتھ
ایک سناٹا جو دل کی خانہ ویرانی میں تھا
تھا وہ میرے خیر مقدم کو بظاہر پیش پیش
عکس دیگر لیکن اس کی خندہ پیشانی میں تھا
مقتل شام و سحر میں کیا پنپتی زندگی
شبنمستاں ہونکتے شعلوں کی نگرانی میں تھا
موسم گل بھی جنوں پرور تھا لیکن بیشتر
مصلحت کا ہاتھ میری چاک دامانی میں تھا
صابرؔ اس منظر کی مووی لے رہا تھا ایک شخص
شاخ پر اک آشیاں شعلوں کی تابانی میں تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.