اعتبار وعدۂ زحمت کی نادانی گئی
اعتبار وعدۂ زحمت کی نادانی گئی
آج تک جو دل میں تھی وہ کفر سامانی گئی
وقت کے ہم راہ اپنی کیف سامانی گئی
دیکھتے ہی دیکھتے آسائش ارزانی گئی
حسن بے پروا کو ان باتوں سے دلچسپی نہیں
کون پوچھے دربدر کی خاک کیوں چھانی گئی
آدمی بدنام تھا لیکن گلوں کی یہ روش
ہم سمجھتے تھے کہ رسم چاک دامانی گئی
دوستو پہچان کی نظریں ہی شاید بجھ گئیں
آشنا صورت بھی جب تم سے نہ پہچانی گئی
اب تو میں ہوں اور اپنا احتساب و جائزہ
ہر کتاب زیست کی اوراق گردانی گئی
سعئ ضبط غم کے تم ہو اک نشان معتبر
صرف اتنی بات پر چہرے کی ویرانی گئی
دیدنی ہے سحر کاریٔ حریم کافری
کیسے کیسے پارسا کی پاک دامانی گئی
کیا سمجھ کر تم پشیمان شکست عہد ہو
شکر ہے تکلیف احساس پریشانی گئی
اے نگاہ التفات دوست یہ کیا ہو گیا
جو مرے شعروں میں تھی وہ شعلہ سامانی گئی
آج تک تو عرض غم پر ضبط کے پہرے رہے
کس کمی سے اس توجہ کی فراوانی گئی
میرے گرد و پیش تھا صوت و صدا کا اک ہجوم
اس فضا میں بھی مری آواز پہچانی گئی
دھوپ میں تو ہم تھے لیکن قسمت اہل دول
جس جگہ حاجت نہ تھی چادر وہاں تانی گئی
اے عروجؔ اب عام ہے شکوہ عدم ترسیل کا
میرؔ و مومنؔ کے زمانے کی غزل خوانی گئی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.