ایک بے منظر اداسی چار سو آنکھوں میں ہے
ایک بے منظر اداسی چار سو آنکھوں میں ہے
جتنا باقی ہے مرے دل کا لہو آنکھوں میں ہے
جسم و جاں پامال صدمات تغافل ہو چکے
اب تو جو ہے ماورائے گفتگو آنکھوں میں ہے
ختم ہوتا ہی نہیں بیدار لمحوں کا عذاب
نیند جیسے کوئی زخم بے رفو آنکھوں میں ہے
تشنگی کا اک پرندہ چیختا ہے ذہن میں
قریۂ جاں کی یہ کیسی آب جو آنکھوں میں ہے
بہتے اشکوں پر لکھی تحریر روشن ہے ابھی
ایک وعدہ ایک پیکر ہو بہ ہو آنکھوں میں ہے
میں بیاباں کی بکھرتی دھوپ ہوں بے سمت و صوت
اب کوئی سودا ہے سر میں اور نہ تو آنکھوں میں ہے
کس طرف دیکھوں مجیبیؔ کس سے رشتہ جوڑ لوں
روبرو دنیا ہے پھر بھی دشت ہو آنکھوں میں ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.