ایک غزل کہتے ہیں اک کیفیت طاری کر لیتے ہیں
ایک غزل کہتے ہیں اک کیفیت طاری کر لیتے ہیں
یوں دنیا پر اگلی چڑھائی کی تیاری کر لیتے ہیں
کتنی محبت کرتا ہے وہ کیسے کہیں گر پوچھ لے کوئی
سو اعداد و شمار کی خاطر زخم شماری کر لیتے ہیں
اس کے خواب اٹھائے نہیں اٹھتے ہلکی پھلکی آنکھوں سے
ایسے میں ہم راتیں جاگ کے پلکیں بھاری کر لیتے ہیں
بہت زیادہ صحت مندی ایک طرح کی بے ادبی ہے
اس سے ملنے جاتے ہیں تو کچھ بیماری کر لیتے ہیں
جب بھی لہو میں رنگ خزاں کی سختی بڑھنے لگ جاتی ہے
چند لب و رخسار بلا کر جشن بہاری کر لیتے ہیں
سبزۂ جاں کے ہرا بھرا رہنے کی ایک یہی صورت ہے
سوکھا پڑتے ہی آنکھوں کی نہریں جاری کر لیتے ہیں
اتنا مال کہاں کہ دکاں بازار محبت میں لے پائیں
چھوٹا موٹا کاروبار تہہ بازاری کر لیتے ہیں
آتش شوق سوا کرنے کو منہ پھیرے رہتے ہیں اس سے
ہم سے سادہ لوح بھی اکثر یہ ہشیاری کر لیتے ہیں
نخل امید ہرا ہو جاتا ہے اکثر باران کرم سے
سو ہم اکثر اس کے در پر خود کو بھکاری کر لیتے ہیں
وہ صرف ایک کے پاس ہی رہ کے چلا جائے تو خیر نہیں ہے
روح و بدن ایسے موقعوں پر مارا ماری کر لیتے ہیں
پاؤں ہوا جیسے ہیں ہمارے جن کا نقش نہیں رہ پاتا
شادی شدہ ہر راہ گزر کچھ دن میں کنواری کر لیتے ہیں
افسر دنیا سخت سہی فرحتؔ احساس ہیں آخر ہم بھی
دفتر میں بھی اپنی سی کچھ کارگزاری کر لیتے ہیں
- کتاب : محبت کرکے دیکھو نہ (Pg. 129)
- Author : فرحت احساس
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2019)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.