ایک ہی نقش ہے جتنا بھی جہاں رہ جائے
ایک ہی نقش ہے جتنا بھی جہاں رہ جائے
آگ اڑتی پھرے ہر سو کہ دھواں رہ جائے
کچھ غرض اس سے نہیں رزق گدا ہو کہ نہ ہو
کوچہ و راہ میں آواز سگاں رہ جائے
یہ سفر وہ ہے کہ اتنا بھی غنیمت ہے اگر
اپنے ہمراہ یہی خاک رواں رہ جائے
اور کچھ روز رکے سست لہو کا موسم
اور کچھ دیر یہی رنگ خزاں رہ جائے
آج کل اس کی طرح ہم بھی ہیں خالی خالی
ایک دو دن اسے کہیو کہ یہاں رہ جائے
کچھ تو رہ جائے تگ و تاز طلب میں باقی
وہم اپنا رہے یا اس کا گماں رہ جائے
وہ تمنا ہوں کہ دل سے نہ گزر ہو جس کا
وہ تماشا ہوں کہ نظروں سے نہاں رہ جائے
یہ بھی اک مرحلۂ سخت ہے اے صاحب طرز
کہ بیاں کی جگہ انداز بیاں رہ جائے
نام تو پھر بھی بڑی بات ہے دنیا میں ظفرؔ
یہ بھی کیا کم ہے جو کچھ اپنا نشاں رہ جائے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.