ایک ماحول اچھوتا چاہوں
ایک ماحول اچھوتا چاہوں
صحن کے نام پہ صحرا چاہوں
کائناتیں مرے خوابوں کی اسیر
اور قدرت سے میں کتنا چاہوں
تربیت میری زمیں نے کی ہے
میں خلاؤں میں لپکنا چاہوں
جتنے تاریک گھروندے ہیں وہاں
دل کی قندیل جلانا چاہوں
بخشوانے کو گناہ آدم
پھر سے فردوس میں جانا چاہوں
دوزخ انسان پہ ہو جائے حرام
رب سے یہ وعدۂ فردا چاہوں
خشک پتے نہ شجر سے چھینے
بس یہ احسان ہوا کا چاہوں
میری ضد کون کرے گا پوری
شام کو صبح کا تارا چاہوں
مرا ہر کام الگ دنیا سے
جس کو چاہوں اسے تنہا چاہوں
ہجر کی کتنی تمازت ہے ندیمؔ
اب کسی یاد کا سایا چاہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.