ایک مفروضہ تقدس خود پہ طاری کر رہا ہوں
ایک مفروضہ تقدس خود پہ طاری کر رہا ہوں
کوہ عصیاں سے بہشتی نہر جاری کر رہا ہوں
چاہتا ہوں عرش و کرسی تک پہنچنا رفتہ رفتہ
اسفلینی خواہشوں پر یوں سواری کر رہا ہوں
منہمک ہے پیرہن شغلی میں کیوں چشم تخیل
میں ابھی عریاں بدن پر دست کاری کر رہا ہوں
نفس تسکینی پہ اس نے سو تقاضے رکھ دیئے ہیں
میں جو ہر لذت پہ فکر حمد باری کر رہا ہوں
سرنگوں گزرا ہے شاید اب کے تلواروں کا موسم
بے ارادہ شہر کی مردم شماری کر رہا ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.