ایک منظر اضطرابی ایک منظر سے زیادہ
ایک منظر اضطرابی ایک منظر سے زیادہ
دل ہے ساحل دل سفینہ دل سمندر سے زیادہ
دو جہاں کی نعمتوں کو دو بدن سے ضرب دے کر
ایک لمحہ مانگتا ہوں بندہ پرور سے زیادہ
اے بت توبہ شکن میں تجھ سے مل کر سوچتا ہوں
پھول میں ہوتی نزاکت کاش پتھر سے زیادہ
حسرت شہر نصیباں کیا تجھے معلوم بھی ہے
دشت ہے آباد یعنی عشق کے گھر سے زیادہ
چشم و لب سے پہلے اک تشنہ تعلق چاہتا ہوں
اور پھر آسودگی تسنیم و کوثر سے زیادہ
ایک لرزیدہ فضا ہے آسماں کی وسعتوں میں
اک پرندہ اڑ رہا ہے اپنے شہ پر سے زیادہ
بستیوں کے لوگ سارے برف ہوتے جا رہے ہیں
بے رخی اچھی نہیں خورشید اکبرؔ سے زیادہ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.