ایک معمہ ہے وہ ویسے کتنا بھولا بھالا ہے
ایک معمہ ہے وہ ویسے کتنا بھولا بھالا ہے
ایک اک رنگ انوکھا اس کا ہر انداز نرالا ہے
شکوہ ہے میں چپ ہوں لیکن اتنا ہے معلوم مجھے
میرے پھول سے لفظوں سے وہ کانٹے چننے والا ہے
استفہام کے جنگل میں کب کون کہاں کیوں کیسا کیا
سوچ میں خود کو گم پایا ہے جب سے ہوش سنبھالا ہے
دنیا میں دیکھا ہے ہر سو جھوٹ کپٹ چھل مکر و فریب
اور یہ سننے میں آیا ہے جھوٹے کا منہ کالا ہے
کوئی سمجھا دے ساحل پر ماتم کرنے والوں کو
اپنی مرضی سے کشتی کو اس گرداب میں ڈالا ہے
اپنے اپنے طور پہ اہل فکر نے اس کو سوچا ہے
میں بس اتنا کہتی ہوں یہ موت کا ایک نوالا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.