ایک مدت سے ادھورا ہے سراپا اپنا
ایک مدت سے ادھورا ہے سراپا اپنا
گم ہوا جانے کہاں بھیڑ میں چہرہ اپنا
میری خواہش کے پرندے کو قناعت ہے پسند
سوکھی ٹہنی پہ ہی کرتا ہے بسیرا اپنا
حرص کاروں کے خزانے کی ہوئی ہے جب سے
خیر خیرات سے بھرتا نہیں کاسہ اپنا
ہم نے سیکھا ہے گلابوں سے تکلم کا طریق
کھردرا ہو نہیں سکتا کبھی لہجہ اپنا
ہے تو عالم کی خبر اپنی خبر خاک نہیں
اب تصور میں ہی کھلتا ہے دریچہ اپنا
اکھڑی اکھڑی سی لگاوٹ کو محبت نہ سمجھ
دھوپ چمکے تو ٹھہرتا نہیں سایہ اپنا
ایک اک سانس پہ دیتے رہے جینے کا خراج
زندگی نے نہ کیا ترک تقاضا اپنا
آدمیت سے مزین وہ کتابیں تھیں سبک
آج ردی سے گراں بار ہے بستہ اپنا
صرف خوابوں پہ اجارہ تھا حقیقت پہ نہیں
ہم سرابوں کو سمجھتے رہے دریا اپنا
کوئی خلعت نہ عنایت کی طلب ہے صابرؔ
ہم تو لکھتے ہیں شب و روز قصیدہ اپنا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.