ایک مدت سے ہے میرے ذہن پر چھایا ہوا
ایک مدت سے ہے میرے ذہن پر چھایا ہوا
ریشمی آنچل تری یادوں کا لہرایا ہوا
ہاں ترے بھولے ہوئے وعدوں سے کچھ ملتا تو ہے
رنگ ان حسرت بھری سانسوں کا سنولایا ہوا
اے مری مجبوریو ناکامیو محرومیو
ہے کوئی مجھ سا فریب زندگی کھایا ہوا
یار اس ماحول میں جینا بہت دشوار ہے
ہر نفس بے چین ہر لمحہ ہے گھبرایا ہوا
نقد جان و دل لٹا بیٹھا تمہارے شہر میں
ایک سوداگر کہیں پردیس سے آیا ہوا
روز اس دیوار کے سائے میں سو لیتا ہوں میں
آپ سے اچھا تو اس دیوار کا سایہ ہوا
دل کے بارے میں انہیں آذرؔ بتا دینا کہ وہ
ایک شیشہ ہے مگر پتھر سے ٹکرایا ہوا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.