ایک مدت سے یہاں ٹھہرا ہوا پانی ہے
ایک مدت سے یہاں ٹھہرا ہوا پانی ہے
دشت تنہائی ہے اور آنکھ میں ویرانی ہے
دیکھو خاموش سی جھیلوں کے کنارے اب بھی
سوگ میں لپٹے درختوں کی فراوانی ہے
آئنہ دیکھنے کی تاب کہاں تھی مجھ میں
صاف لکھی تھی جو چہرے پہ پشیمانی ہے
دشت وحشت میں چراغوں کو جلاؤں کیسے
ان چراغوں سے ہواؤں کو پریشانی ہے
سایۂ ابر توجہ کی خبر کیا ہوتی
زندگی میں نے تو صحراؤں سے پہچانی ہے
اپنے ماضی کو مجھے دفن بھی خود کرنا ہے
یہ قیامت بھی دل و جاں پہ ابھی ڈھانی ہے
اب کے چمکا ہے ستارا جو فرحؔ بخت کا ہے
ترے اطراف اسی کی ہے جو تابانی ہے
- کتاب : Koi bhi rut ho (Pg. 157)
- Author : Farah iqbal
- مطبع : Alhamd Publications (2011)
- اشاعت : 2011
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.