ایک نئی زیست لئے آج اجل آئی ہے
ایک نئی زیست لئے آج اجل آئی ہے
قید سے ہم نے رہائی ہی کہاں پائی ہے
اس سے ملنے کے لئے اس قدر اے دل نہ تڑپ
میرا اظہار محبت مری رسوائی ہے
انقلابات زمانہ کو زمانہ سمجھے
ہم تو کہتے ہیں کہ وہ بھی تری انگڑائی ہے
جس کے شعلوں سے ہوئی حسن کی رنگت روشن
آگ ایسی مرے جذبات نے سلگائی ہے
ہم نے ارمانوں کی میت کو دیا ہے کاندھا
اے غم دل یہ تری حوصلہ افزائی ہے
ہے یہ ڈر نوح کا طوفاں نہ سمجھ لے دنیا
چادر اشک وفا ہم نے جو پھیلائی ہے
آئنہ خانۂ دل میں وہ ضرور آئیں گے
ان کے دل میں بھی تمنائے خود آرائی ہے
ہاتھ سے ساقی کے پینا ہی پڑے گا مجھے اب
میری توبہ شکنی بن کے گھٹا چھائی ہے
اکملؔ انسان وہ اکمل ہے بہ فیض فطرت
درد انساں سے جس انساں کی شناسائی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.