ایک ننگ وجود کیا تھا میں
ایک ننگ وجود کیا تھا میں
اپنے اندر کھلا پڑا تھا میں
درمیاں آ گیا وہ جان غزل
شہر آشوب لکھ رہا تھا میں
تجھ پہ سانسوں کو خرچ کرتا رہا
مفلسی میں بھی کب رکا تھا میں
وہ نہ اترا ہوا کے جھولے سے
فرش گل سا بچھا ہوا تھا میں
عرض فدوی کی اب تو سن لیجے
کہہ رہا ہے کبھی خدا تھا میں
پوچھ مجھ سے عذاب یکتائی
اپنے اطراف گھومتا تھا میں
ڈھونڈھتا ہوں اب اپنے پرزوں کو
اپنے ہونے کا اک نشہ تھا میں
- کتاب : جسم کا برتن سرد پڑا ہے (Pg. 102)
- Author : امیر حمزہ ثاقب
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2019)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.