ایک نشانی آگ میں پھینکی ایک نشانی دریا میں
ایک نشانی آگ میں پھینکی ایک نشانی دریا میں
اور پھر اتنے اشک بہے کہ جتنا پانی دریا میں
ایک محبت کچے گھڑے پر جب سے تیر کے آئی ہے
موجیں لکھا کرتی ہیں ہر روز کہانی دریا میں
تھک جاؤ تو رستہ بدلو اپنی اپنی ناؤ کا
کیا دریا سے لڑنا اور کیا آگ لگائی دریا میں
شاید کوئی اپنی غربت کے ہاتھوں مجبور ہوئی
ایک چنریا بہتے دیکھی کل شب دھانی دریا میں
طاہرؔ خیر ہو سب کی لیکن کچھ انہونی لگتی ہے
جنگل میں کتنی ہلچل کتنی ویرانی دریا میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.