ایک پل میں دم گفتار سے لب تر ہو جائے
ایک پل میں دم گفتار سے لب تر ہو جائے
تجھ سے جو بات بھی کر لے وہ سخن ور ہو جائے
اب یہاں صرف پری چہرہ رہیں گے آ کر
اور کوئی ان کے علاوہ ہے تو باہر ہو جائے
ہو گیا رشتۂ جاں پھر دل نادان کے ساتھ
اس سپاہی کی تمنا ہے کہ لشکر ہو جائے
اب کے ٹھہرائی ہے ہم نے بھی یہی شرط وفا
جو بھی اس شہر میں آئے وہ ستمگر ہو جائے
یعنی اے دیدۂ تر تیری عنایت ہے کہ بس
ورنہ میدان سخن آج ہی بنجر ہو جائے
ہم نے آشوب کے عالم میں کہی ہے یہ غزل
سو یہ خواہش ہے کہ ہر شعر گل تر ہو جائے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.