ایک صداقت پر مرنا ہے ایک صداقت جینا ہے
ایک صداقت پر مرنا ہے ایک صداقت جینا ہے
شب کی گہرائی ناپی ہے دن کی وسعت جینا ہے
وہ بھی دن تھے دیواروں پر جب قربت کے سائے تھے
اب گھر کی چھوٹی سی چھت کو ہجر کی ساعت جینا ہے
پتا کہاں تھا چلتے چلتے راہیں بھی کھو جاتی ہیں
اب تک جس کا پیار جیا ہے اس کی نفرت جینا ہے
جانے کتنا سوچا ہوگا بستی کے خوش پوشوں نے
تب یہ حکم لگایا ہوگا سب کو عزت جینا ہے
نہیں شکایت مجھے کسی سے جگ کیوں مجھ سے گلہ کرے
اس دنیا میں سب کو اپنی اپنی قسمت جینا ہے
شہر کے سارے اخباروں نے چھاپی ہے یہ ایک خبر
اک دن خاک کے ہر ذرے کو دھوپ کی شدت جینا ہے
میرا جرم یہی ہے میں نے جھوٹ کے ہاتھوں سچ بیچا
اب تو جتنے دن جینا ہے چشم ندامت جینا ہے
لیکن یہ کیا دن ڈھلتے ہی چھوڑا ساتھ چراغوں نے
ہم تو یہ سمجھے تھے ساری عمر محبت جینا ہے
بیٹھی ہے بارود کے اوپر کب سے یہ دنیا پروازؔ
لگتا ہے میرے بچوں کو ڈر اور دہشت جینا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.