ایک سناٹا سا تقریر میں رکھا گیا تھا
ایک سناٹا سا تقریر میں رکھا گیا تھا
خواب ہی خواب کی تعبیر میں رکھا گیا تھا
آگہی روز ڈراتی رہی منزل سے مگر
حوصلہ پاؤں کی زنجیر میں رکھا گیا تھا
کون بسمل تھا بتا ہی نہیں سکتا کوئی
زخم دل سینۂ شمشیر میں رکھا گیا تھا
ساز و آواز کے ملنے سے اثر ہونے لگا
تیرا لہجہ مری تحریر میں رکھا گیا تھا
دامن حسن طلب زخم کی دولت کے سوا
درد بھی عشق کی جاگیر میں رکھا گیا تھا
ایک منظر میں خلا پر کیا تنہائی نے
میرا چہرہ وہیں تصویر میں رکھا گیا تھا
خود پرستی سے بچاتا رہا ہم زاد مرا
آئنہ نسخۂ اکسیر میں رکھا گیا تھا
زندگی موت کے پہلو میں نمو پاتی رہی
اک خرابہ یہاں تعمیر میں رکھا گیا تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.