ایک تلوار ہے تلوار بھی دو دھاری ہے
ایک تلوار ہے تلوار بھی دو دھاری ہے
زندگی پھول ہے پتھر سے مگر بھاری ہے
ایک عادت سی ہے بیزار طبیعت رہنا
ورنہ اس وقت کہاں کوئی بھی بے زاری ہے
سرفروشی کا مزہ ہے نہ خطا پوشی کا
دشمن جان بھی جذبات سے اب عاری ہے
آؤ سنسار کی قیمت میں لگائیں بولی
لوگ کہتے ہیں کہ انسان میں ناداری ہے
جانے کس سوچ کے لمحے نے چھوا ہے تجھ کو
اک عجب کیف مری روح پہ بھی طاری ہے
تشنہ تشنہ سے بدن میں ہے شرابی نشہ
چشمۂ فیض تری آنکھ سے پھر جاری ہے
- کتاب : اردو غزل کا مغربی دریچہ(یورپ اور امریکہ کی اردو غزل کا پہلا معتبر ترین انتخاب) (Pg. 554)
- مطبع : کتاب سرائے بیت الحکمت لاہور کا اشاعتی ادارہ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.