ایک تو تجھ سے مری ذات کو رسوائی ملی
ایک تو تجھ سے مری ذات کو رسوائی ملی
اور پھر یہ بھی ستم ہے کہ تو ہرجائی ملی
مسکراتا ہوں تو ہونٹوں پہ جلن ہوتی ہے
تیری چاہت میں مجھے کرب کی یکجائی ملی
پھر کسی خوف سے جذبوں کے بدن کانپ اٹھے
جب بھی ان شبنمی آنکھوں سے پذیرائی ملی
ایک یہ لوگ کہ ساتھی بھی بدل لیتے ہیں
اک مرا دل کہ جسے ذات کی تنہائی ملی
جس نے دل والوں کی بستی میں رہائش رکھی
اس سیہ بخت کو برسوں کی شکیبائی ملی
ظاہراً سب ہی لیے پھرتے ہیں روشن آنکھیں
ورنہ کتنے ہی جنہیں روح کی بینائی ملی
اس کی آنکھوں میں مرا نام فروزاں تھا نیازؔ
جس کے چہرے پہ مجھے اپنی شناسائی ملی
- کتاب : Abr, Hawa aur Barish (Pg. 86)
- Author : Niyaz Hussain Lakhvira
- مطبع : Mavaraa Publications (1988)
- اشاعت : 1988
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.