عوض وفا کا جفا سے ستم شعار نہ دے
عوض وفا کا جفا سے ستم شعار نہ دے
سکون گر نہیں دیتا تو انتشار نہ دے
تسلیاں مجھے بیکار غم گسار نہ دے
نہ ہوگا فائدہ کچھ عارضی بہار نہ دے
بہار کی ہے طلب مجھ کو باغباں لیکن
خزاں نصیب جو ہو وہ مجھے بہار نہ دے
نظر نہ آئے مجھے جس میں دوست کی صورت
تو ایسا آئنۂ قلب کردگار نہ دے
طلب ہے گرمیٔ پہلوئے دوست کی مجھ کو
ہوائے سرد نہ دے مجھ کو جوئبار نہ دے
ہوائے زلف سے سب کو سکون ملتا ہے
یہ اور بات ہے دل کو مرے قرار نہ دے
اسیر حلقۂ گیسو کرے گا عالم کو
کسی حسین کو اللہ اقتدار نہ دے
تڑپ رہا ہوں میں ایسے کہ جیسے سانپ ڈسے
خدا کسی کو بھی سودائے زلف یار نہ دے
کسی کے دکھ میں نہ تڑپے جو دل وہ دل ہی نہیں
جو ظلم کو نہ مٹائے وہ اختیار نہ دے
زبان خلق کو نقارۂ خدا نہ بنا
برائیوں کا کبھی اپنی اشتہار نہ دے
سنا ہے ان کی زباں پر ہمارا شکوہ ہے
خدا ہماری سماعت کو اعتبار نہ دے
پڑے نہ دل سے کہیں ان کے گرد رنج و الم
پتہ لحد کا اٹھ اٹھ کر انہیں غبار نہ دے
فضاؔ کو جلوۂ حسن اپنا ایک بار دکھا
نظر کو لذت توقیر انتظار نہ دے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.