فیض معمور فضاؤں سے لپٹ کر رو لیں
فیض معمور فضاؤں سے لپٹ کر رو لیں
پھر مدینے کی ہواؤں سے لپٹ کر رو لیں
وقت رخصت دل مضطر کی تمنا تھی یہی
آپ کے در کے گداؤں سے لپٹ کر رو لیں
ابر چھایا ہے ہوائیں ہیں مدینے سے ہیں دور
جی تڑپتا ہے گھٹاؤں سے لپٹ کر رو لیں
حشر میں ان کے سبب وہ متوجہ ہوں گے
کیوں نہ ہم اپنی خطاؤں سے لپٹ کر رو لیں
ہم سے بہتر ہیں کہ ان تک یہ پہنچ جاتی ہیں
انہی خوش بخت دعاؤں سے لپٹ کر رو لیں
کربلا ہی کے تصور سے یہ آتا ہے خیال
دہر کی ساری بلاؤں سے لپٹ کر رو لیں
قدرداں ان کے ہیں جب وہ شہہ خوبان جہاں
تہنیتؔ اپنی وفاؤں سے لپٹ کر رو لیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.