فیضان محبت نہ ہوا عام ابھی تک
فیضان محبت نہ ہوا عام ابھی تک
تاریک ہے انسان کا انجام ابھی تک
میخانے میں ہے تشنہ لبی عام ابھی تک
گردش میں محبت کے نہیں جام ابھی تک
چھینا ہے سکوں دہر کا ارباب خرد نے
ہیں اہل جنوں مورد الزام ابھی تک
واماندۂ منزل ہے جو اے راہ رو شوق
شاید ہے ترا ذوق طلب خام ابھی تک
اس دور سکوں سوز و پر آشوب میں اے دوست
مایوس نہیں ہے دل ناکام ابھی تک
رخصت ہوا گو دور خزاں فصل گل آئی
گلشن کے وہی ہیں سحر و شام ابھی تک
پہونچا تو بشر رفعت مریخ و قمر پر
قابو میں نہیں گردش ایام ابھی تک
دنیا نے جسے رفعت فاراں سے سنا تھا
ہے امن کا ضامن وہی پیغام ابھی تک
گو تابش انوار سے خیرہ ہیں نگاہیں
ہے صبح کے رخ پر اثر شام ابھی تک
نادم تو ہیں وہ قتل پہ ارباب وفا کے
لیکن سر فہرست ہیں کچھ نام ابھی تک
ساقی ترے میخانے کی تنظیم غلط پر
سنتے ہیں کہ رندوں میں ہے کہرام ابھی تک
دھبہ نہیں گو دامن تہذیب پہ لیکن
ملتے ہیں یہاں بندۂ بے دام ابھی تک
مدت ہوئی کچھ ربط نہیں شعر و سخن سے
ہوتا ہے مرے قلب کو الہام ابھی تک
اس پر بھی نگاہ کرم اے فاطر ہستی
ذوقیؔ ہے رہین غم و آلام ابھی تک
- کتاب : Kulliyat-e-Dr. Zauqi (Pg. 43)
- Author : Dr. Zauqi
- مطبع : Suhail Anwar (2012)
- اشاعت : 2012
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.