فلک کا بوجھ زمیں کو اٹھانا پڑتا ہے
فلک کا بوجھ زمیں کو اٹھانا پڑتا ہے
اور اک مدار میں خود کو گھمانا پڑتا ہے
یہ رات کٹتی ہے امید صبح نو میں مری
یہ دن سکوں کی طلب میں بتانا پڑتا ہے
ملے نہ جب کوئی ثانی ہمارا دنیا کو
تو اپنے پہلو سے خود کو اٹھانا پڑتا ہے
تمام لوگ تو چہرہ شناس ہوتے نہیں
اسی لیے تو قبیلہ بتانا پڑتا ہے
کبھی کبھار یہ وحشت برائے نام رہے
کبھی کبھار تو منظر پہ آنا پڑتا ہے
تو اپنے طاق میں اپنا دیا جلائے رکھ
ہم اہل دل ہیں ہمیں دل جلانا پڑتا ہے
انہی سے پوچھ محبت کی شعلگی ہے کیا
کہ زخم کھا کے جنہیں مسکرانا پڑتا ہے
پھر اس کے بعد کہیں لوٹتی ہے بینائی
ہر ایک آنکھ سے منظر اٹھانا پڑتا ہے
تری شراب کی عزت بچانے کی خاطر
بنا پئے بھی ہمیں لڑکھڑانا پڑتا ہے
وہ مجھ سے پوچھ لے شاید کبھی پسند مری
سو ہر خیال کو منظر پہ لانا پڑتا ہے
علامتوں کو سمجھتا نہیں کوئی آربؔ
ہمیں چراغ کا معنی بتانا پڑتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.