فلک کی چیز زمیں پر اتار لائی گئی
فلک کی چیز زمیں پر اتار لائی گئی
یہ عشق کیا تھا کہ جس میں انا گنوائی گئی
ہزار جنموں کا بندھن کہا تھا اس نے جسے
یہ دوستی تو فقط دو قدم نبھائی گئی
ترے لبوں سے چھلکتی رہی شراب مگر
ہم ایسے تشنہ لبوں کو نہیں پلائی گئی
نہ خوش ادا ہی تھی وہ اور نہ دل ربا تھی مگر
ہماری ضد تھی سو ضد میں ہی وہ پٹائی گئی
میں سنگ دل تو نہیں ہوں کہ نقش دائم ہو
تمہاری یاد تو اب ہو گئی ہے آئی گئی
سہیلیاں تھیں بضد اور انہیں تھا پاس حیا
ہمارے نام کی مہندی نہیں دکھائی گئی
مرا وجود تھا عریاں بدن کے پیکر میں
حجاب کے لیے تیری قبا سلائی گئی
تمہارے ساتھ مری نیند نے بھی ہجرت کی
اگرچہ نیند کی گولی بہت کھلائی گئی
اب التفات کی امید مت رکھو کاشفؔ
نکاح کیا ہوا برسوں کی آشنائی گئی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.